Nimra Akthar

Add To collaction

کوئی ہے؟"

میرا نام احمد ہے اور میں سعد کا والد ہوں۔ میرے گھر کے پیچھے ایک بہت پرانا قبرستان ہے جو انگریزوں کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ اس میں آج بھی انگریزوں کے قبریں موجود ہیں۔ میرے گھر کے کمروں کی کھڑکیاں اسی قبرستان کی طرف کھلتی ہیں اور میرے گھر کی چھت سے بھی ایک خوفناک قبرستان صاف نظر آتا ہے۔ سعد کے کمرے سے بھی، قبرستان کی طرف سے چلنے والی ہوا کا بھی گزر تھا۔

رات تقریباً 2:30 بجے سعد معمول کی طرح پڑھائی کر رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نہیں نظر آرہا۔ قبرستان میں ایک عجیب سی خاموشی ہے۔ پرندے، بے چینی میں ادھر سے اُدھر جا رہے ہیں۔ اچانک کتے بھوکنا شروع ہوگیا جیسے کسی غیر انسانی مخلوق کو دیکھ لیا ہو۔ سعد ان آوازوں سے پریشان ہوکر کھڑکی بند کرنے کے لیے جا رہا ہے اسے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ اب جو منظر وہ دیکھنے والا ہے وہ اُس کی زندگی بدل کر رکھ دے گا۔

سعد کھڑکی کے پاس پہنچا اور اُس نے دیکھا کہ ایک عورت نے میلی چھیلی چادر پہنی ہوئی ہے اور کتّے نے اُسے گھیرا ہوا ہے اور وہ عورت قبرستان کی طرف جا رہی ہے۔

سعد تشویش کے عالم میں اپنے گھر سے باہر نکلا اور اُس عورت کے پیچھے گیا۔ اتنی دیر میں وہ عورت قبرستان کے اندر تک جا چکی تھی۔ سعد نے سوچا کہ رات کے اس وقت قبرستان میں جانا ٹھیک نہیں۔ لیکن اس کا دل کچھ اور ہی کہ رہا ہے۔ بس پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

سعد اُس عورت کی قبر تک پہنچ گیا اور اب وہ اُس عورت کے آمنے سامنے کھڑا ہے۔ سعد نے اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور اِتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہے۔ اب انسانی حدیان چٹخنے جیسی آواز آتی ہے۔

اس عورت نے بغیر مُڑے اپنی پوری گردن پیچھے گھما لی۔ اُس کا خوفناک چہرہ سعد کی طرف تھا اور باقی کا جسم دوسری طرف سعد یہ سب دیکھ کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور پاگلوں کی طرح وہاں سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے جب وہ قبرستان کے دروازے تک پہنچا تو اُس کا پیر ایک پتھر سے ٹکراگیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ وہاں بہوش ہوگیا۔

صبح ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سعد کو وہاں بے ہوش پایا۔ میں اُسے اُٹھا کر جلدی سے گھر لے آیا۔ اور اُس نے ہمیں رات کو ہونے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔ بس... اُسی دن سے اُس کی طبیت خراب رہنے لگی اور اُسے عجیب سے دور پڑھنے لگے اُس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ وہ کہتا تھا کہ اُس کے کمرے کی چھت سے خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہ عورت اُس کے خواب میں آتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈر کے مارے سو نہیں پاتا۔

اسی طرح دن گزرتے گئے اور پھر ایک دن سعد اپنے کمرے سے نکل کر آیا۔ اُس کے کپڑے میلے ہو رہے تھے اور ہاتھوں پر ناخنوں کے نشان تھے۔ میں سعد کے طرف بڑھنے لگا کہ اچانک..سعد یہ سب دیکھ کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور پاگلوں کی طرح وہاں سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے جب وہ قبرستان کے دروازے تک پہنچا تو اُس کا پیر ایک پتھر سے ٹکراگیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ وہاں بہوش ہوگیا۔

صبح ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سعد کو وہاں بے ہوش پایا۔ میں اُسے اُٹھا کر جلدی سے گھر لے آیا۔ اور اُس نے ہمیں رات کو ہونے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔ بس... اُسی دن سے اُس کی طبیت خراب رہنے لگی اور اُسے عجیب سے دور پڑھنے لگے اُس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ وہ کہتا تھا کہ اُس کے کمرے کی چھت سے خون ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہ عورت اُس کے خواب میں آتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈر کے مارے سو نہیں پاتا۔

اسی طرح دن گزرتے گئے اور پھر ایک دن سعد اپنے کمرے سے نکل کر آیا۔ اُس کے کپڑے میلے ہو رہے تھے اور ہاتھوں پر ناخنوں کے نشان تھے۔ میں سعد کے طرف بڑھنے لگا کہ اچانک...

انسانی حدیان چٹخنے جیسی آواز آتی ہے اور سعد نے اُسی عورت کی طرح اپنی گردن گھما لی، اب اُس کی گردن میری طرف تھی اور اُس کا جسم پیچھے کی طرف اور دیکھتے ہی دیکھتے سعد کی لاش زمین پر گری ہوئی تھی۔.

انسانی حدیان چٹخنے جیسی آواز آتی ہے اور سعد نے اُسی عورت کی طرح اپنی گردن گھما لی، اب اُس کی گردن میری طرف تھی اور اُس کا جسم پیچھے کی طرف اور دیکھتے ہی دیکھتے سعد کی لاش زمین پر گری ہوئی تھی۔

   6
0 Comments